کہساروں پہ برف جمی ہے ایسی لگی جھڑی یے
دسمبر ہے نہ جنوری ہے فروری یہ فروری ہے
ٹھنڈی یخ ہوا جب چہرے اور ہاتھوں کو چھوتی ہے
برف کی سل جیسی لگتی ہے پاؤں میں جو جوتی ہے
چائے سموسے اور قہوہ کی طلب آج کل بڑی ہے
کیفے کے باہر دیکھو کیا لمبی سی قطار کھڑی ہے
دسمبر ہے نہ جنوری ہے فروری یہ فروری ہے
آہا چھٹی کے دن دھوپ میں بیٹھ کے کینو کھاتے ہیں
آس پڑوس کی سکھیوں کو بھی اپنے صحن میں بلاتے ہیں
کھٹے میٹھے سنگتروں کی پاس ہی پیٹی پڑی ہے
دسمبر ہے نہ جنوری ہے فروری یہ فروری ہے
شام کے وقت پکوڑوں اور چائے کا مزہ اڑاتے ہیں
کبھی کبھی ہفتے کی شامیں ایسے بھی بتاتے ہیں
چولہے کے ایک طرف چاہے کی پتیلی چڑھی ہے
دسمبر ہے نہ جنوری ہے فروری یہ فروری ہے
فروری کے بعد پتا ہے کون سا موسم آتا ہے
مہینہ مارچ کا آتا ہے بہار کا موسم لاتا ہے
مارچ کا موسم آ تا ہے باغوں میں بہاریں لاتا ہے
رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو سے من آنگن مہکاتا ہے
نرم و نازک تتلیوں کی آنکھوں کو بہار دکھاتا ہے
کوئل اور بلبل کے دلکش نغموں سے دل کو لبھاتا ہے
وہ دیکھو گملے کی ٹہنی کونپلوں سے بھری ہے
دسمبر ہے نہ جنوری ہے فروری یہ فروری ہے
کہساروں پہ برف جمی ہے ایسی لگی جھڑی یے
دسمبر ہے نہ جنوری ہے فروری یہ فروری ہے