یہ پیچ و خم دنیا کے غم
سوچوں میں گم تم اور ہم
آتا ہے کوئی جاتا ہے کوئی
ہنستا کوئی کوئی ہے پرنم
خوش باش رہے مسرور کوئی
سہتا ہے کوئی دنیا کے ستم
کوئی پل پل مرتا رہتا ہے
سو بار کوئی لیتا ہے جنم
شکوہ ہے کسی کو محفل سے
ہے کسی کے لئےتنہائی غم
کوئی روٹھا صنم منا نہ سکے
جاری ہیں کسی پہ صنم کے کرم
کبھی دور رہیں کبھی پاس آئیں
آگے پیچھے بڑھتے ہیں قدم
چاہت کی سزا تنہائی ہے
چاہت کو سب کہتے ہیں جرم
رخ با پردہ ہو یا نہ ہو
لیکن آنکھوں میں رکھنا شرم
کوئی خوف نہیں جو ہم چپ ہیں
رکھا ہے تیری چاہت کا بھرم
یہ قصہ کیونکر چھیڑ دیا
کیوں ان کو کیا پھر سے برہم
ہم زندہ ہیں بس تیرے لئے
اور تجھ پر ہی مرتے ہیں ہم
عظمٰی ذرا محتاط رہو
ٹوٹے نہ لفظوں کا ردھم