یہ کیسا ہی آیا ہے اب تو زمانہ
سبھی کے لبوں پر ہے اپنا فسانہ
نہیں ہے دلوں میں کسی کے بھی الفت
نہ ملنا کسی سے ہی اب والہانہ
صدائیں رہیں دلکشا نہ ہی اب تو
نگاہیں رہیں نہ ہی اب مشفقانہ
ادا بھی ملے نہ کہیں دلبرانہ
نوا بھی ملے نہ کہیں عاشقانہ
بدلنا ہے اس طرز کو ہی تو اپنے
رہیں نہ کسی کے ہی غم سے بیگانہ
یہی آرزو اب ہماری رہے گی
کہ ہوجائے دل اپنا سب سے یگانہ
ملیں گے بہت مال والے یہاں پر
مگر نیکیوں سے ہے خالی خزانہ
ملے کوئی مظلوم نہ اب جہاں میں
توہر کام اپنا ہو اب منصفانہ
رہے زندگی اپنی اب سادگی پر
کبھی نہ ہی انداز ہو حاکمانہ
جو بھٹکے اسے راہ سیدھی دکھائیں
تو اس میں بھی انداز ہو عاجزانہ
عمل اثر کا ہو ریا سے ہی خالی
جو جذبہ ہو اس کا وہ ہو مخلصانہ