عشق تو عشق ہی رہے

Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Houston

 غم ہجراں سے گزرے تو جانا ہجر کا غم کیا ہے
بحر عشق میں اترے تو جانا عشق کا حجم کیا ہے

وسیع علم عشق کا بحر عشق تو عشق ہی رہے
انتہائے دام عشق میں جانا عشق کا بھرم کیا ہے

ملے ساحل نہ کنارہ کھو ج عشق تو عشق ہی ملے
ملے سائل ہی کو اشارہ موج عشق کا دھرم کیا ہے

عشق مجازی یا عشق باری عشق تو عشق ہی رہے
عابد و سالک ہی جانے شدت عشق میں عاشق کا مقام کیا ہے

Rate it:
Views: 546
01 Sep, 2020