Deep Poetry in Urdu, Shayari & Ghazal

Deep Poetry in Urdu is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest deep love poetry in urdu that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Deep Poetry compilation that offers an individual to show the sentiments through words.You can read poetry in urdu 2 lines text deep and download images can easily share it with your loved ones including your friends and family members.
Deep Poetry Images
سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا
گرمئ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم کھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دو دلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں ٹھہر جائیں ذرا!
پھر موسمِ بہار مِرے گُلستاں میں ہے
اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے
تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سَوا
جگنو سی یہ زمِیں جو کفِ آسماں میں ہے
اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خِزاں اَثر
اور آج سارا باغ اُسی کی اماں میں ہے
خوشبو کو ترک کر کے نہ لائے چمن میں رنگ
اتنی تو سُوجھ بُوجھ مِرے باغباں میں ہے
لشکر کی آنکھ مالِ غنیمت پہ ہے لگی
سالارِ فوج اور کسی اِمتحاں میں ہے
ہر جاں نثار یاد دہانی میں منہمک
نیکی کا ہر حساب دِل دوستاں میں ہے
حیرت سے دیکھتا ہے سمندر مِری طرف
کشتی میں کوئی بات ہے، یا بادباں میں ہے
اُس کا بھی دھیا ن جشن کی شب اے سپاہِ دوست
باقی ابھی جو تِیر، عُدو کی کماںمیں ہے
بیٹھے رہیں گے، شام تلک تیرے شِیشہ گر
یہ جانتے ہُوئے، کہ خسارہ دُکاں میں ہے
مسند کے اِتنے پاس نہ جائیں کہ پھر کَھلے
وہ بے تعلّقی جو مِزاجِ شہاں میں ہے
ورنہ یہ تیز دھوپ تو چبُھتی ہَمَیں بھی ہے
ہم چُپ کھڑے ہُوئے ہیں کہ تُو سائباں میں ہے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے
ھم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے
پھر اس طرح ہُوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دربار آ گئے
اَب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے پہ میرے یار آ گئے
آواز دے کے زندگی ہر بار چُھپ گئی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آ گئے
کھول کے بیٹھی ہوں دروازہ توبہ ہے
اب تجھ سے ملنے کی خاطر سجتی ہوں
ناک میں موتی منہ پر غازہ توبہ ہے
چائے میرے ہاتھ سے گرنے والی تھی
اس نے اس انداز سے گھورا توبہ ہے
ہونٹوں پر وہ آنکھیں جیسے ٹھہری ہیں
تتلی پر اک بھنورا چھوڑا توبہ ہے
شرم سے پانی ہو جانے کو چاہے جی
جڑ کر میرے ساتھ ہے بیٹھا توبہ ہے
عکس اسی کا مجھ کو دکھنے لگتا ہے
جب بھی تکتی ہوں آئینہ توبہ ہے
یوں ہی برتن میز پہ اب تک رکھے ہیں
غصے میں کیوں ناشتہ چھوڑا توبہ ہے
اس پر کالا اسمانی اور پیچ کلر
جچتا ہے ہر رنگ کا جوڑا توبہ ہے
چوڑی توڑے چٹکی کاٹے چھپ جائے
میری اس دل دار سے توبہ توبہ ہے
تو کسی اور ہی موسم کی مہک لائی تھی
ڈر رہا تھا کہ کہیں زخم نہ بھر جائیں میرے
اور تو مٹھیاں بھر بھر کے نمک لائی تھی
اور ہی طرح کی آنکھیں تھی تیرے چہرے پر
تو کسی اور ہی ستارے کی چمک لائی تھی
تیری آواز ہی سب کچھ تھی مجھے مونثِ جاں
کیا کروں میں کہ تو بولی ہی بہت کم مجھ سے
تیری چپ سے ہی یہ محسوس کیا تھا میں نے
جیت جائے گا کسی روز تیرا غم مجھ سے
شہر آوازیں لگاتا تھا مگر تو چپ تھی
یہ تعلق مجھے کھاتا تھا مگر تو چپ تھی
وہی انجام تھا عشق کا جو آغاز سے ہے
تجھ کو پایا بھی نہیں تھا کہ تجھ کھونا تھا
چلی آتی ہے یہی رسم کئی صدیوں سے
یہی ہوتا تھا یہی ہو گا یہی ہونا تھا
پوچھتا رہتا تھا تجھ سے کہ بتا کیا دکھ ہے
اور میری آنکھ میں آنسو بھی نہیں ہوتے تھے
میں نے اندازے لگائے کہ سبب کیا ہو گا
پر میرے تیر ترازو ہی نہیں ہوتے تھے
جس کا ڈر تھا مجھے معلوم پڑا لوگوں سے
پھر وہ خوش بخت پلٹ آیا تیری دنیا میں
جس کے جانے پہ مجھے تو نے جگہ دی دل میں
میری قسمت میں ہی جب خالی جگہ لکھی تھی
تجھ سے شکوہ بھی اگر کرتا تو کیسے کرتا ۔۔
میں وہ سبزہ تھا جسے روند دیا جاتا ہے
میں وہ جنگل تھا جسے کاٹ دیا جاتا ہے
میں وہ در تھا جسے دستک کی کمی کھاتی ہے
میں وہ منزل تھا جہاں ٹوٹی سڑک جاتی ہے
میں وہ گھر تھا جسے آباد نہیں کرتا کوئی
میں تو وہ تھا کہ جسے یاد نہیں کرتا کوئی
خیر اس بات کو تو چھوڑ بتا کیسی ہے؟؟
تو نے چاہا تھا جسے وہ تیرے نزدیک تو ہے
کون سے غم نے تجھے چاٹ لیا اندر سے
آجکل پھر تو چپ رہتی ہے سب ٹھیک تو ہے
کہ جس کے ساتھ نہ تھا ہم سفر اسی کا رہا
وہ بت کہ دشمن دیں تھا بقول ناصح کے
سوال سجدہ جب آیا تو در اسی کا رہا
ہزار چارہ گروں نے ہزار باتیں کیں
کہا جو دل نے سخن معتبر اسی کا رہا
بہت سی خواہشیں سو بارشوں میں بھیگی ہیں
میں کس طرح سے کہوں عمر بھر اسی کا رہا
کہ اپنے حرف کی توقیر جانتا تھا فرازؔ
اسی لیے کف قاتل پہ سر اسی کا رہا
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
لوگ تھرا گئے جس وقت منادی آئی
آج پیغام نیا ظل الٰہی دیں گے
جھونکے کچھ ایسے تھپکتے ہیں گلوں کے رخسار
جیسے اس بار تو پت جھڑ سے بچا ہی دیں گے
ہم وہ شب زاد کہ سورج کی عنایات میں بھی
اپنے بچوں کو فقط کور نگاہی دیں گے
آستیں سانپوں کی پہنیں گے گلے میں مالا
اہل کوفہ کو نئی شہر پناہی دیں گے
شہر کی چابیاں اعدا کے حوالے کر کے
تحفتاً پھر انہیں مقتول سپاہی دیں گے
یہ تونےجس کواپناکہہ کہ گھررکھاہواہے
مرےکاندھےپہ سررہنےنہیں دےگاکسی دن
یہی جس نےمرےکاندھےپہ سررکھاہواہے
یہ کس نے دی ہے مجھکو ہار جانے پر تسلی
یہ کس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا ہوا ہے
مسلسل رہ نہیں سکتا کسی ایک دل میں حافی
غریبوں کے نصیبوں میں سفر رکھا ہوا ہے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
پھر بولے غریب ہے بلا لو
بے دل رکھنے سے فائدہ کیا
تم جان سے مجھ کو مار ڈالو
اس نے بھی تو دیکھی ہیں یہ آنکھیں
آنکھ آرسی پر سمجھ کے ڈالو
آیا ہے وہ مہ بجھا بھی دو شمع
پروانوں کو بزم سے نکالو
گھبرا کے ہم آئے تھے سوئے حشر
یاں پیش ہے اور ماجرا لو
تکیے میں گیا تو میں پکارا
شب تیرہ ہے جاگو سونے والو
اور دن پہ امیرؔ تکیہ کب تک
تم بھی تو کچھ آپ کو سنبھالو
طرفہ نکالا آپ نے جوبن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
گل رخ نازک زلف ہے سنبل آنکھ ہے نرگس سیب زنخداں
حسن سے تم ہو غیرت گلشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
ساقیٔ بزم روز ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں
آنکھیں ہیں ساغر شیشہ ہے گردن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
قہر غضب ظاہر کی رکاوٹ آفت جاں در پردہ لگاوٹ
چاہ کی تیور پیار کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ
غمزہ اچکا عشوہ ہے ڈاکو قہر ادائیں سحر ہیں باتیں
چور نگاہیں ناز ہے رہزن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
نور کا تن ہے نور کے کپڑے اس پر کیا زیور کی چمک ہے
چھلے کنگن اکے جوشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
جمع کیا ضدین کو تم نے سختی ایسی نرمی ایسی
موم بدن ہے دل ہے آہن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
واہ امیرؔ ایسا ہو کہنا شعر ہیں یا معشوق کا گہنہ
صاف ہے بندش مضموں روشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے
نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے
صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے
میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
تڑپ کے روح یہ کہتی ہے ہجر جاناں میں
کہ تیرے ساتھ دل بے قرار ہم بھی ہیں
رہے دماغ اگر آسماں پہ دور نہیں
کہ تیرے کوچہ میں مست غبار ہم بھی ہیں
کہو کہ نخل چمن ہم سے سرکشی نہ کریں
انہیں کی طرح سے باغ و بہار ہم بھی ہیں
ہمارے آگے ذرا ہو سمجھ کے زمزمہ سنج
کہ ایک نغمہ سرا اے ہزار ہم بھی ہیں
کہاں تک آئنے میں دیکھ بھال ادھر دیکھو
کہ اک نگاہ کے امیدوار ہم بھی ہیں
شراب منہ سے لگاتے نہیں ہیں اے زاہد
فراق یار میں پرہیزگار ہم بھی ہیں
ہمارا نام بھی لکھ لو جو ہے قلم جاری
قدیم آپ کے خدمت گزار ہم بھی ہیں
ہما ہیں گرد مری ہڈیوں کے آٹھ پہر
سگ آ کے کہتے ہیں امیدوار ہم بھی ہیں
جو لڑکھڑا کے گرے تو قدم پہ ساقی کے
امیرؔ مست نہیں ہوشیار ہم بھی ہیں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں
دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں
ہر پردہ پردہ نہیں ہوتا اتنا میں بھ جانتا ہوں
میں جانتا ہوں وہ غصے میں کس حد تک جا سکتی ہے
اپنی زبان پہ قابو رکھو میں اس کو پہچانتا ہوں
سارے مرد ہی اک جیسے ہیں تم نے کیسے کہہ ڈالا
میں بھی تو اک مرد ہوں تم کو خود سے بہتر مانتا ہوں
میں نے اس سے پیار کیا ہے ملکیت کا دعوٰی نہیں
وہ جس کے بھی ساتھ ہے میں اس کو بھی اپنا مانتا ہوں
یا اس پہ مبنی کوئی تأثر کوئی اشارا تو میں تمہارا
غرور پرور انا کا مالک کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے
مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا تو میں تمہارا
تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہے لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے اگر میں ہارا تو میں تمہارا
تمہارا عاشق تمہارا مخلص تمہارا ساتھی تمہارا اپنا
رہا نہ ان میں سے کوئی دنیا میں جب تمہارا تو میں تمہارا
تمہارا ہونے کے فیصلے کو میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں
اگر مقدر کا کوئی ٹوٹا کبھی ستارا تو میں تمہارا
یہ کس پہ تعویذ کر رہے ہو یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے
تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ تو میں تمہارا
دوستی مجھ سے اور پیار کوئی اور ہے ناں
جو تیرے حسن پہ مرتے ہیں بہت سے ہوں گے
پر تیرے دل کا طلبگار کوئی اور ہے ناں
تُو میرے اشک نہ دیکھ، اور فقط اتنا بتا
میں نہیں ہوں تیرا دلدار کوئی اور ہے ناں
اس لئیے بھی تجھے دنیا سے الگ چاہتا ہوں
تُو کوئی اور ہے، سنسار کوئی اور ہے ناں
سارا عالم دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔ توبہ ہے
سب سے بچ کر اک نظر تم نے دیکھا
اور یہاں جو دل ڈھرکا ہے۔۔۔۔ توبہ ہے
چھیڑ رہی تھی زلف کو چنچل شوخ ہوا
میں یہ سمجھی تم نے چھوا ہے۔۔۔۔ توبہ ہے
میں نے تم سے دل میں ڈھیروں باتیں کی
تمکو خامشی کا گلہ ہے۔۔۔۔۔ توبہ ہے
تم نے پکارا نام کسی کا محفل میں
میں نے اپنا نام سنا ہے ۔۔۔۔۔۔ توبہ ہے
تم نے کہا تھا آپ سے مل کر خوشی ہوئی
لیکن میں نے جو سمجھا ہے ۔۔۔۔۔ توبہ ہے
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو تم بھی ناں
خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو تم بھی ناں
مانگ رہے ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو تم بھی ناں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قُمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخِ امن لیے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
سو یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں
تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو
میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
ہم ہیں مصروف انتظام مگر
جانے کیا انتظام کر رہے ہیں
ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم
ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں
ایک قتالہ چاہیے ہم کو
ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیں
کیا بھلا ساغر سفال کہ ہم
ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں
ہم تو آئے تھے عرض مطلب کو
اور وہ احترام کر رہے ہیں
نہ اٹھے آہ کا دھواں بھی کہ وہ
کوئے دل میں خرام کر رہے ہیں
اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے
بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں
ہم عجب ہیں کہ اس کے کوچے میں
بے سبب دھوم دھام کر رہے ہیں
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو
کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
ہے تمہارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
آئینہ سارے شہر کی بینائی لے گیا
ڈوبے ہوئے جہاز پہ کیا تبصرہ کریں
یہ حادثہ تو سوچ کی گہرائی لے گیا
حالانکہ بے زبان تھا لیکن عجیب تھا
جو شخص مجھ سے چھین کے گویائی لے گیا
میں آج اپنے گھر سے نکلنے نہ پاؤں گا
بس اک قمیص تھی جو مرا بھائی لے گیا
غالبؔ تمہارے واسطے اب کچھ نہیں رہا
گلیوں کے سارے سنگ تو سودائی لے گیا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
غزل میری مگر دل میں خیال اسکا تھا
میں شاعر تو نہ تھا مگر اس نے بنا دیا
آنکھیں شرابی ھونٹ ساگر چہرہ کمال اسکا تھا
میں کیسے مان لو کہ اسکو مجھ سے محبت نہیں
بچھڑتے وقت میری طرح عجب حال اسکا تھا
مجھے اپنے اجڑ جانے سے نہیں تھا کوئی سروکار
میں اس لیے افسردہ تھا کہ مجھے ملال اسکا تھا
تنہائی میں بھی جو اس نے نہ کہہ سکا
آصف بھری محفل میں کہہ گیا کہ یہ کمال اسکا تھا
کیا اسےدل ہی دل میں چاہانہیں سکتا
ایسی گہرئی ہے ان نیلی آنکھوں کی
جہاں سفینہ بھی کوئی جانہیں سکتا
جواجازت ہو تو تیرے شہرچلاآؤں
ہجر کی آگ میں دل جلانہیں سکتا
پرواز بھی بلند نہیں دوری بھی بہت
وہاں تو میراتخیل بھی جا نہیں سکتا
اتنی دور سےتیرےدر پہ جو آئےہیں
اب قانون بھی ہمیں اٹھا نہیں سکتا
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اسکی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اسکی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اسکی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں
چلے تو اسکو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اسکے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
یا کسی اجڑی ہوئی گود کی تنہائی میں
یا کسی کھوئے ہوئے شہر کی رعنائی میں
مجھ کو محسوس کرو
تم نے گر لفظ کے آئینہ بے روح میں دیکھا ہوگا
میری سوچوں کے خدوخال کے اجلے پن کو
اس طرح شرحِ خیالات نہیں ہوسکتی
اس طرح تم سے ملاقات نہیں ہوسکتی
مجھ کو محسوس کرو
اپنی خواہش کے جزیروں میں نہ محبوس کرو
صرف محسوس کرو
شائد خط وہ میرے جلاتے ہیں
نالاں نہیں ہوں ان سے فقط اتنا
بزم غیر میں ہم کو وہ بلاتے ہیں
جب پانی سر سے گزرنے لگے
پھر تنکے بھی دام بڑھاتے ہیں
صرف اپنائی ہے ہم نے روش تیری
کیوں ہم ہی سے کھنچے جاتے ہیں
شب تنہائی میں رات کے پرندے
اکثر سونے پر مجھے اکساتے ہیں
تم نے دیکھی نہ اب تک گہرائی محبت
زخم دل کے ابھی ہم دکھاتے ہیں
روتا ہے حشر محبت پہ ہر اک شاعر
روتے ہیں جو اشعار یہ گاتے ہیں
یاد رہتے ہیں عیاز داغ محبت
دن گزرتے تھے اور گزر جاتے ہیں
اک شام کہیں آباد تو ہو
اس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کان یلا پھول کھلے
وہ پھول بہادیں لہروں میں
اک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہیں ان آنکھوں میں
اس بسرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سے گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے
اس جھیل کنارے پل دو پل
وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے
وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
اُن جھیل سے گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
Deep Poetry in Urdu
Deep poetry in Urdu text is a world of feelings, intertwined with deep thoughts and revealing delicate essence that stir the soul. Deep poetry in Urdu emerges from the simple experience of being able to depict complicated feelings in plain terms to captivate the reader's attention and provide the reader with a solid connection to a piece of writing long after they have left the words behind. Each line of poetry represents our struggle for life's complexities, the pain and challenges of love, and the fact of the unknown surrounding us.
Deep lines in Urdu have this profound power over readers, especially those searching for comprehension of meaning beyond the mark. These categories of writing can exist by themselves, such as those of poets Mirza Ghalib, Allama Iqbal, or Faiz Ahmed Faiz, who created lines of writing that resonate with deep meaning, awakening feelings of acceptance, and making their meaning known.
Whether it gives pain of separation, search for truth, and silence of solitude, the deep poetry in Urdu text conveys all of these with unparalleled beauty. The cadence and music of the verses improve their already impressive allure. Reading such poetry is to tap into an ocean of thoughts, where every line beckons the reader deeper into further contemplation, considering that each line is deeper than the one before. For anyone who has experienced discovery in the essence of life and is aware of its true situations in the world, the deep poetry in urdu text represents a depth of treasure that is never placed in the past.
A lovely collection of romantic Urdu shayari perfect for expressing heartfelt feelings to loved ones.
- Muntaha , Karachi
- Thu 23 Oct, 2025
There’s just something magical about love poetry in Urdu. It says things that are hard to put into words. I love how romantic shayari in Urdu captures both the sweetness and the pain of love so beautifully.
- Fatima , Islamabad
- Tue 21 Oct, 2025
This love poetry section is full of warmth and beautiful emotions. Each poem captures the feeling of love perfectly. I enjoy visiting this page again and again.
- Haris , Karachi
- Thu 16 Oct, 2025














