Add Poetry

Poetries by dr zahid sheikh

تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو ۔۔۔دوگانا لڑکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
اداسی چھائی ہے جینا نہیں میرے لیے آساں
بچھڑ کے تم سے میرے دل کی دنیا ہے بہت ویراں
میں شب بھر گھومتا رہتا ہوں سڑکوں پہ یونہی تنہا
خوشی کے گیت روٹھے بجھ گئے ہیں میرے سب ارماں
سریلی بانسری بھی آج بہلاتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
تصور میں مرے آتے ہو آ کے دل جلاتے ہو
بتا دو دور رہ کے کیوں مجھے تم آزماتے ہو
کھلے ہیں پھول ہر جانب ،بہاریں گیت گاتی ہیں
جدا رہ کے حسیں موسم میں کیوں مجھ کو ستاتے ہو
منا لے جو تمھیں ایسی ادا آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
تمھاری یاد میں اب نیند بھی آتی نہیں مجھ کو
عجب عالم ہے دل کا کوئی شے بھاتی نہیں مجھ کو
Dr.Zahid Sheikh
اے کاش ساس بہو ہوں سہیلیوں کی طرح ہر ایک سو وہی منظر دکھائی دیتا ہے
ہر ایک چیز میں دلبر دکھائی دیتا ہے
وہ مجھ سے دور سہی پر دکھائی دیتا ہے
کہ میرے خوابوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
تو کاش دیکھ لے ظاہر سے ہٹ کے بھی جو کہیں
مرے وجود کے اندر دکھائی دیتا ہے
ملا ہے دیر کے بعد پھر وہی گلے شکوے
شکائیتوں کا تو دفتر دکھائی دیتا ہے
مزاج میں کہیں آوارگی نہ آ جائے
آ میرے پاس تو بے گھر دکھائی دیتا ہے
تری آغوش بھی دکھ میرا کم نہ کر پائی
وطن کا حال جو ابتر دکھائی دیتا ہے
فریب کھا کے محبت کا شہر چھوڑ گیا
وہ اب ویرانوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے
ملی نہ اس کو پزیرائی اس زمانے میں
جو شخص فن کا سمندر دکھائی دیتا ہے
تو اپنے ظاہر و باطن کو ایک کر ملا
سبق تو خیر کا خود شر دکھائی دیتا ہے
اے کاش ساس بہو ہوں سہیلیوں کی طرح
کہ ان کا جھگڑا تو گھر گھر دکھائی دیتا ہے
کہیں تو بیوی کنیزوں سی نظر آتی ہے
کہیں غلام بھی شوہر دکھائی دیتا ہے
بڑھاپا آیا تو زوجہ کے ہاتھوں ناک میں دم
جوان بیٹا بھی خود سر دکھائی دیتا ہے
ہوا تھا بردہ فروشوں کے ہاتھوں جو اغوا
وہ بھیک مانگتا در در دکھائی دیتا ہے
ہیں دام کم تو بھی وارا نہیں یہ مال مجھے
معیار میں بھی تو کم تر دکھائی دیتا ہے
بنا وہ عشق الہٰی نماز میں ہے کھڑا
جو مے سے خالی ہو ساغر دکھائی دیتا ہے
جو دیکھتا ہوں میں باطن کی آنکھ سے زاہد
وہ مجھ کو آنکھوں سے بہتر دکھائی دیتا ہے
Dr.Zahid Sheikh
دیکھتا ہوں میں گلابوں کو بڑی الفت سے تم ہو میرے لیے پیچیدہ سوالوں کی طرح
کاش آ جاؤ نظر دن کے اجالوں کی طرح
عشق میں ہوتی ہے رسوائی چلو مان لیا
میرا ہی ذکر مگر کیوں ہے مثالوں کی طرح
کیسے کاٹوں میں ترے ہجر کے لمحات بتا
ایک لمحہ بھی گزرتا ہے تو سالوں کی طرح
تجھ پہ چھینٹے نہ پڑیں عشق میں رسوائی کے
تیری عزت کو بچاؤں گا میں ڈھالوں کی طرح
دیکھتا ہوں میں گلابوں کو بڑی الفت سے
مجھ کو آتے ہیں نظر یہ ترے گالوں کی طرح
تیری آنکھوں کو مثالوں سے بیاں کر نہ سکوں
یہ بھی ناکافی ہے کہہ دوں ہیں غزالوں کی طرح
لوگ ریشم کو ملائم و حسیں کہتے ہیں
وہ کہاں تیرے حسیں ریشمی بالوں کی طرح
کیسے چھوڑں میں ترا ہاتھ پکڑ کر جاناں !
میں نے چاہا ہے تجھے چاہنے والوں کی طرح
وہ جو چاہے تو کھلیں، اور نہ چاہے نہ کھلیں
اس نے سمجھا ہے کہ لب ہیں مرے تالوں کی طرح
اک وجد کی ہے کیفیت کہ بنا سازو آواز
رقص اس مست کا ہوتا ہے دھمالوں کی طرح
عشق کرنے میں برائی تو نہیں ہے لیکن
اس میں ہوتی ہے دکھن پاؤں کے چھالوں کی طرح
دور سے آتی ہیں کوئل کی صدائیں زاہد
ان میں ہے درد کا نغمہ مرے نالوں کی طرح
ڈاکٹر زاہد شیخ
تمھارے حسن کو کچھ دیر دیکھوں تو قرار آئے تماشا ساری دنیا میں بنا دو گی مری محبوب
تمھیں چاہا ہے تو اس کی سزا دو گی مری محبوب
کبھی تقدیر سے کچھ بھی نہیں مانگا قسم لے لو
اگر تم سے میں کچھ مانگوں تو کیا دو گی مری محبوب
لگی دل کی بجھانے میں اتر جاؤں گا دریا میں
مگر اک آگ اس میں بھی لگا دو گی مری محبوب
یہی سب سوچ کر اظہار الفت کر نہیں پاتا
مجھے ناگاہ نظروں سے گرا دو گی مری محبوب
تمھارے حسن کو کچھ دیر دیکھوں تو قرار آئے
ذرا سا رخ سے کیا پردہ ہٹا دو گی مری محبوب
چلی جاؤ گی کل پردیس پھر کیسی ملاقاتیں
مری ہستی،مری باتیں بھلا دو گی مری محبوب
بس اتنا سا بتا دو گر لگی ٹھوکر تو اس لمحے
تڑپ کر مجھکو دھیمی سی صدا دو گی مری محبوب
تمھاری بے رخی کب تک سہوں میں یہ ذرا سوچو
جواں جذبوں کے سب شعلے بجھا دو گی مری محبوب
امنگوں کو جگا رکھا ہے میں نے آج بھی ، دیکھو
انھیں پر سرد مہری سے سلا دو گی مری محبوب
یہ خوش فہمی رہی طوفان ہستی میں مجھے اکثر
کنارے اپنی پلکوں کے بچھا دو گی مری محبوب
Dr.Zahid Sheikh
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی ۔۔ گیت غموں کی دھول کو اس طرح دھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی
ہے پیار اس کا حقیقت یہ مانتا ہوں میں
اسے قرار نہیں یہ بھی جانتا ہوں میں
وہ میرے پیار میں ہر چیز کھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
رہے گا اس کو مرا انتظار صبح تلک
کرے گی بند نہ شب بھر وہ ایک لمحہ پلک
تھکی تھکی سی مگر دن کو سو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
نئی وفا، نئی الفت میں کھو نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو کبھی اس کا ہو نہیں سکتا
وہ پھر بھی پیار کے موتی پرو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
یہ وقت چپکے ہی چپکے گزرتا جائے گا
مگر یہ راز کوئی بھی نہ جان پائے گا
کہ پیار میں کبھی برباد وہ رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں سو رہی ہو گی
غموں کی دھول کو اس طرح دھو رہی ہو گی
اداس شام کی بانہوں میں رو رہی ہو گی
حسیں رتوں کے تصور میں مبتلا ہو کر
نئے دکھوں کے کئی خار بو رہی ہو گی
Dr.Zahid Sheikh
عید کے دن بھی بہت دور ہیں ہم کیسے ملیں عید کے دن بھی بہت دور ہیں ہم کیسے ملیں
پھول خوشیوں کے جدائی میں بھلا کیسے کھلیں
چوڑیاں ہاتھوں میں پہناؤں یہی حسرت ہے
کتنی مجبور جدائی میں مری الفت ہے
تیرے ہاتھوں پہ حنا کتنی مہکتی ہو گی
پیار کی آگ بھی سینے میں دہکتی ہو گی
پر زمانے کی نگاہوں کے کڑے پہرے ہیں
آج بھی اپنی محبت پہ بڑے پہرے ہیں
میری محبوب ! جو آنکھوں کو تری دید نہیں
عید کے دن بھی تمناؤں کی تو عید نہیں
صبح کی طرح مری شام بھی ویراں ہو گی
دل بجھا ہو گا تو مشکل میں مری جاں ہو گی
تیرے بن عید کا یہ دن بھی مجھے راس نہیں
کس طرح چین ملے آج بھی تو پاس نہیں
یوں تو رنگوں کی ، گلابوں کی ہے ہر سمت بہار
پر ذرا سا بھی نہیں آج مرے دل کو قرار
اپنے کمرے میں اکیلا ہوں ،تری یادیں ہیں
پھر خیالوں میں تری پیار بھری باتیں ہیں
سوچتا ہوں کہ یہ تہوار مناؤں کیسے
ہو کے تیار کہیں گھر سے میں جاؤں کیسے
کوئی پیغام ہی مل جائے ترا پیار بھرا
فون پر آج کے دن بات ہی تو کر لے ذرا
تیری آواز سے کچھ دل کو سکوں آئے گا
عید کا دن تو کسی طور گزر جائے گا
Dr.Zahid Sheikh
فلک سے چاند اتر آیا میری بانہوں میں خاموشیوں میں بھی کہہ دی جو دل کی بات مجھے
ملی ہے پیار کی کتنی حسیں سوغات مجھے
جھکی جھکی سی نگاہوں کا اٹھ کے جھک جانا
تری حیا کے نہ بھولیں گے یہ لمحات مجھے
فلک سے چاند اتر آیا میری بانہوں میں
ملی ہے تاروں کی جیسے کوئی برات مجھے
دھک رہے ہیں محبت کے آج انگارے
جلا رہی ہے امنگوں کی یہ برسات مجھے
قریب پا کے تمھیں تو بدل گئی دنیا
لگا یوں جھومتی گاتی ملی حیات مجھے
بکھیر دو میرے شانے پہ پیار سے زلفیں
تم اپنے حسن کی دے دو ذرا خیرات مجھے
ہر ایک لمحہ تغیر تھا ،ایک وحشت تھی
تمھارے آنے سے جیسے ہے اک ثبات مجھے
عجیب طور سے گزری ہے زندگی میری
کبھی نہ ایسے ملے پرسکوں حالات مجھے
بھٹک رہا تھا بڑی پر اداس راہوں میں
خبر نہ تھی یوں ملے گی کبھی نشاط مجھے
تمھارے پیار نے بخشی ہے ہر خوشی مجھ کو
ملے ہو تم تو ملی ساری کائنات مجھے
خوشی ملی ہے تو غم میں بدل نہ جائے کہیں
یہ ڈر ہے پھر مری تقدیر دے نہ مات مجھے
بہکتی سانسیں، مچلتی ہوئی تمنائیں
نہ سونے دیں گی تمھیں نہ ہی ساری رات مجھے
تمھارا ہاتھ جو ہاتھوں میں آج ہے جاناں
ہر ایک چیز سے پیارے ہیں یہ لمحات مجھے
لبوں کو اے میری محبوب! کھول دو اب تو
دکھا دو اب تو چھپائے ہوئے جذبات مجھے
خدا نے وصل کے لمحوں کی شکل میں زاہد
سین تحفہ دیا اس حسین رات مجھے
Dr.Zahid Sheikh
Famous Poets
View More Poets