بھول کر اپنی اڑانیں ہوئے گھائل تیرے
ہم سے آوارہ بھی ہو بیٹھے ہیں مائل تیرے
تجھے پانے کی یہی شرطِ اگر ہے تو چلو
سوچے سمجھے بنا ہو جائیں گے قائل تیرے
کیا کھلیں عشق کے اسرار و لطائف ہم پر
زندگی! ختم نہیں ہوتے مسائل تیرے
بانٹنا حسن کی دولت کو ذرا رک رک کر
کچھ خریدار ہیں کچھ لوگ ہیں سائل تیرے
کوئی زنجیر بکف نکلا ہے تیری جانب
کوئی چوپال میں گاتا ہے خصائل تیرے
تیری مٹی سے مری شان ہے اے ارض ِوطن
اپنے بچوں کو بتاؤں گا فضائل تیرے
تو نے دیکھا تو کہیں ہو گا خدا کو لیکن
کون مانے گا مرے یار دلائل تیرے
خواہشیں قید ہیں اک بند گلی میں اب تک
کتنے محدود ہیں تقدیر وسائل تیرے