آؤ کہ چلمن سے پھوُل چُن کے دیکھتے ہیں
کس کا کتنا اُجر آج گن کے دیکھتے ہیں
کیوں سرکش جیون بغاوت پہ اتر آیا ہے
اپنی آوارگی کا روش ابکہ سُن کے دیکھتے ہیں
خود کی بے ادبی پہ تمسخر کون کرے یہاں
بے وفائی میں سبھی مزاج اُن کے دیکھتے ہیں
فطرتوں میں صدا نے بہت ھنگامے کیئے اب تو
آؤ کہ غل غپاڑے کچھ فن کے دیکھتے ہیں
صورتوں سے محبت کی گہرائی نہیں ناپی جاتی
نین تو سنجوگ سبھی تَن کے دیکھتے ہیں
حقیقتوں کو قرار شاید کبھی نہ مل سکے
راتوں کو جاگ کے خواب ہم جن کے دیکھتے ہیں