آئینوں جب کوئی تصویر دکھاتے کیوں ہو
اصل چہرہ بھی ذرا سامنے لاتے کیوں ہو
اور کیا، دے ہی چکے ہو جو اندھیرے کو شکست
ایک لحظہ کو سہی جوت جگاتے کیوں ہو
میں ادھر کی بھی نہیں، اور اُدھرکی نہ رہی
تجھ سے راضی بھی نہیں اور جلاتے کیوں ہو
تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے
وصل لگتا بھی نہیں اور رلاتے کیوں ہو
اُس کے اظہار سے پہلے کوئی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو سناتے کیوں ہو
دور ہو زلف رسا کی یہ پریشانی کچھ
اس کو سُلجھاو تو گل کو سجاتے کیوں ہو