آئے آج گئےلمحے کوئی یاد کریں
بزم ویراں دم فرصت نئی آباد کریں
کچھ تو ہو تذکرہ عشق و وفا کی رونق
آج پہلو میں دل شاد کو نوشاد کریں
اور چلیے تو سہی راہ گم گشتہ پر
وہی دیکھیں جو سنگ میل تو کچھ یاد کریں
کتنے ارماں ہیں سبوتاژ وفا کے پیچھے
ہیں پنپنے کو تیار فسوں یاد کریں
آپ بدلیں نہ سہی اپنے لیے ذوق نیا
ہم سے کہیے کہ نہ لٹنےپہ بھی فریاد کریں
ایک خوشبؤ سی ہے احساس پہ حاوی جیسے
اک سندیسہ ہے کہ گلشن نیا آباد کریں
اب کے طاہروہ نشہ اور بھی مدہوش کرے
جھکی نظروں کی جو مخمور ادا یاد کریں