آب و تاب کے اُس رنگ کا بھی کیا کہیے
مجھ میں بس گئی اِس اُمنگ کا بھی کیا کہیے
ہر سانس میں جیسے چبھن سے لگتی ہو
دل کے اِسی ڈھنگ کا بھی کیا کہیے
ملاکر نگاہ پھر اس نے نگاہ ہی پھیرلی
دل میں اٹھی جو ترنگ کا بھی کیا کہیے
اپنی اپنی طبیعت کو لازوال رکھتے ہیں بس
اِس جہاں کے ہر رنگ کا بھی کیا کہیے
رفاقتوں کا تو کہیں وجُود بھی نہیں
میری روش سے گذرتے سنگ کا بھی کیا کہیے
تیرے حُسن رخ پہ جو گیسو بکھرے
چھڑتی دل کی اِس جنگ کا بھی کیا کہیے