پھر جنوب و شمال ڈالی ہے
آج اتنی دھمال ڈالی ہے
کیسے اس کو میں معتبر سمجھوں
جس نے عزت اچھال ڈالی ہے
وہ ہی منکر ہے میری ہستی کا
جس کی کاندھوں پہ شال ڈالی ہے
اپنی لغزش پہ کتنا نازاں ہے
رسم یہ بھی کمال ڈالی ہے
اپنے کانوں میں روح بھرنے کو
اذانِ حبشی بلال ڈالی ہے
غم کی خیرات دے کے کیوں وشمہ
ساری مستی نکال ڈالی ہے