آج انسان ہے ملا نہ کریں
اپنے کردار سے دغا نہ کریں
جو پرندہ رہا کیا ہے ابھی
وہ بھی ہے آخری زرانہ کریں
دل کی خواہش جو بڑھ رہی ہے ابھی
لطف آئے گا دل رہا نہ کریں
اس سمندر میں ہاتھ میرا ہے
ناؤ اشکوں کی اب جلانہ کریں
نظر آتی نہیں وفا مجھ کو
میری چاہت کو آزما نہ کریں
کون سوچے کہ راہ الفت میں
کتنے مشکل کیا دعا نہ کریں
میری آنکھوں میں قید ہیں دریا
قافلے یاد کے بہا نہ کریں
بڑھتی جاتی ہے آج تشنہ لبی
اپنے جذبات ان چھپانہ کریں
اس کو دنیا وفا سے کیا لینا
سارے عالم سے یہ وفا نہ کریں
اُس سے ملنے کی اب بھی حسرت ہے
وعدہ کر کے جو مکرتا نہ کریں
آپ کے شہر گر رہوں وشمہ
کیا قباحت ہے دل لگا نہ کریں