آج اُترا وہ مری بات کو سمجھا کیا ہے
فلسفہ میں نے محبت کا ہے سمجھاکیا ہے
دل کے صحرا میں بڑے زور کا بادل برسا
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے ٹوٹا کیا ہے
جس سے اک عمر رہا دعویٔ قربت مجھ کو
ہائے اس نے نہ کبھی ملنے کا سوچا کیا ہے
مژ دۃِ ہجر وصل وہ دیتا ہی رہا
وصل برپا تو ہوا، لطف میں اپنا کیا ہے
کتنی شدت سے ترے عارض و لب یاد آئے
جب سر شام افق پر کوئی کہتا کیا ہے
تو نہیں پر تری یادوں کے ہیں سائے دل پر
مجھکو ہر پل ترا ہونے کا برپا کیا ہے
اب کے اس طور سے آئی تھی گلستاں میں بہار
دامن شاخ میں سوکھا ہوا پتا کیا ہے
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ وشمہ وہ نہیں
اپنی آنکھوں سے ترا عکس ہٹا نا کیا ہے