کچھ گمشدہ منزلوں کے نشان ڈھونڈتا ہوں
سر شام ہی سے اجلی صبح کھوجتا ہوں
غموں کے طوفان میں اس کی مسکان ڈھونڈتا ہوں
جلا کے تیز دھوپ میں اب سایہ ڈھونڈتا ہوں
آج بھی ستاروں سے آگے کے جہان ڈھونڈتا ہوں
جو گزر گئی عمر وفا آج بھی اسے ڈھونڈتا ہوں
نادان ہو آج بھی سایہ بن کے جو کبھی ساتھ تھا اسے ڈھونڈ تا ہوں
جس نے ہمیشہ بوجھ جانا ہمیں اسکی نظر کرم ڈھونڈتا ہوں
ہاں میں ہوں نادان دیکھو کسے ڈھونڈتا ہوں