آج تو! اس دل نے حوصلہ ہار دیا، تھک کر
اورپھر! اسے پانے کی خواہش کو مار دیا تھک کر
حیات ہو اگر آبلہ پا بھی تو! گزر ہی جائے گی
تلخ حقیقت کا یہ زہر بھی اندر اتار لیا تھک کر
شاید ہم بھی تھے بنے! اس سے جدائی کا سبب
تلخ حقیقت کا یہ زھر بھی اندر اتار دیا تھک کر
وہ بن کر پیامبر! روشنی کا، اترا تھا میرے آنگن میں
دکھانا تھا جو اسے اندھیرا، چپکے سے اندر اتار لیا تھک کر
اے کاش! وہ لا زوال پل زندگی کے امر ہوجاتے یونہی
مگر! اپنی ننھی ننھی خواہشوں کو اب مار دیا تھک کر
اس نے کہا! یہ تو عادت ہے تمہاری بکھرے رہنے کی
سو! ہم نے ٹوٹے ہوئے دل کو بظاہر سنوار لیا تھک کر