آج پھر بادل برسے ہیں
گلے شکوے ہزاروں ہیں
اپنی ہی ذات سے مجھکو
آج پھر باتیں کرنی ہیں
خود ہی کو زخم سنانے ہیں
خود ہی آنسو بہانے ہیں
خود ہی کو خود سمجھانا ہے
محبت روگ ہے ظالم
آج پھر بادل برسے ہیں
تمھارا ہجر اور یہ بارش
ساتھ خون روتی میری آنکھیں
سنو تو درد کیسے ہیں
دیکھو تو ذخم کیسے ہیں
سہو تو تم ذرا یہ سب
یہ سب کچھ موت جیسا ہے
آج پھر بادل برسے ہیں