میں جس طرف بھی گیا آپکے در پر نکلا
میرے جنون کی منزل یہی سفر نکلا
ہائے وہ عشق کے خود ساختہ حسین فریب
میں جسے معجزہ سمجھا وہ اک ہنر نکلا
شوق در شوق محبت کی داستاں نکلی
مری چکور کی آنکھوں میں بھی قمر نکلا
سنا ہے اسکو دیوانہ پکارتے ہیں لوگ
میرا رقیب تو مجھ سے بھی معتبر نکلا
سامنا کر ہی لیا اس فروغ محشر کا
اسی بہانے سے اندر کا ایک ڈر نکلا
اس قدر ذوق لطافت ہے میری جذبوں میں
نقش جو آنکھ نے کھینچا وہ لہو پر نکلا
آج بھر اس پری پیکر کی بہت یاد ٰآئی
آج پھر چودھویں کا چاند میرے گھر نکلا