آج کل مجھے نیند نہیں آتی
عجیب سی بے چینی ہے تڑپاتی
جب بھی یاد آتی ہے اُس کی
چُھپ کے بس آنسو ہوں بہاتی
بے شکل سی آواز ہر وقت مجھے
میرا نام لے کے ہے بُلاتی
شاید کے رشتہ ہو کسی کہانی سے
جس کی بلکل ہی سمجھ نہیں آتی
مجھے کس نے ہے بھُلایا اے دوست
مجھے کس کی ہے یاد ستاتی
الجھنیں بڑھتی جا رہی ہے میری
اور عقل کوئی ایک نہیں سلجھاتی
اپنے اندر ہی کھو گئی ہوں میں
خود سے ہی اب باہر نہیں جاتی
تنہائی میں اِک خوف طاری ہے مجھ پے
اور اِک صدا مجھے ہے ڈراتی
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟
میری موجودگی مجھے نہیں بتاتی
صرف اتنا یاد ہے کبھی تم تھے میرے
اور کوئی بات یاد نہیں آتی
نہال مجھے خود سے شناش کرائو
میں کیا ہوں؟ میں کیا تھی؟
میں کیا تھی؟میں کون ہوں؟