ساتھ اس کا سدا کر دے ، آج کچھ نیا کر دے
ہو جائے وہ میرا بس ، پوری میری دعا کر دے
پھول کا گلدستہ ہے ، مجھ سے وہ وابستہ ہے
عرض ہے یہ غرض ہے ، اسے میری شفا کر دے
دل میں مجھے آنے دے اور سب کو جانے دے
ملتا ہے کوئی اس سے ، اس کو وہ منع کر دے
کسی سے منسوب ہے ،مجھ میں مگر مجذوب ہے
چاہتا ہے مجھے بھی وہ ، اسے صرف میرا کر دے
رہے چاہے جس کے ساتھ، دل ہو اس کا میرے ساتھ
تھوڑی سی محبت ہو ، بس اتنی سی وفا کر دے
آنکھ اس کی مشروب ہے، بس یہی مطلوب ہے
قرض نعمان ادا کر دے فرض وہ ادا کر دے