وہ کتنے سالوں کتنی مدتوں کے بعد آئی
سوئی حسرتیں تمام، پھر سے جگا لائی
دیکھ کر اُسے میرے دل کو کتنی خوشی ملی
نجانے آنکھ میری کیوں اچانک بھر آئی
وہ میرے سامنے، میرے ہی روبرو بیٹھی
جو مُجھ کو دیکھا تو وہ زرا سی شرمائی
میں ہنس کر کہنے لگا کُچھ بات کرو
آنچل دانتوں میں دبا کر زرا سی مُسکائی
کہا اماں سے مُجھے کوئی مانگنے آیا
میں تُجھ سے تیرے دل کی بات پوچھنے آئی
میری اُمیدوں حسرتوں پہ سرد برف پڑھی
یہ کس امتحان کی گھڑی مُجھ پہ آئی
میری آنکھوں میں بے بسی تو اُس نے پڑھ لی تھی
پھر بھی اُمید کی شمع میرے دل میں جلائی
میں اِس سوال سے کچھ اسقدر اُلجھ سا گیا
میرے نظر اُسکی نظروں سے پھر نہ مل پائی
اُس نے مجھ کو سمجھایا، مُجھے دلاسہ دیا
خُدا حافظ جو کہا تو آواز بھر آئی
ہاں اُسکی آخری مُلاقات مُجھ کو یاد آئی
بج رہی تھی، ڈھولک ساتھ شہنائی