سنو لوگو!
نہ چھوئے میرے پیار کو کوئی
میرے یار کو کوئی
کہ بند قباَ کے جیسے خود میں پوش سویا ہے
نہ چھوئے اس کے گلابی ہونٹوں کو کوئی
کسی کو چھونے کی خواہش میں بہت خاموش بند سے ہیں
کہ جن کو چھو کے گزریں گے
وہ مہکے گا وہ تڑپے گا
انہی کے لمس کی خاطر
نہ چھو نا کہ اگر جنبش ہو ئی ان میں
تو خواہشوں کا سمندر ان کے کناروں پر مچل جائے گا
سنو لوگو!
نہ چھوئے میرے پیار کی چاند سی آنکھو ں کوکوئی
کہ جو خواب ہیں ان میں، کسی کو پا لینے کی چاہ کے
وہ تسلسل ٹوٹ نہ جائے
یہ محوِخواب ہیں ایسے ، جیسے کسی تتلی کو پھول پہ نیند آجائے
سنو لوگو!
یہ آنکھیں خود ہی جاگیں گی
مگر نجانے کس کو چاہیں گع
ابھی تو بند ہیں ایسے
مقدس آیتں لپٹی ہو ں غلافوں میں جیسے
ان آنکھو ں کو نہ ستائے کو ئی
کہ یہ آنکھیں ، ان آنکھوں کا چمکنا
مجھے سب کچھ پیارا ہے
کہ ا ن کے واسطے میں نے اپنا آپ ہارا ہے