آزاد نظم
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar, Jalal Pur Jattan, Gujratوہ تتلی جیسی لڑکی
رنگوں سے پیار وہ کرتی
ہنستی کھیلا کرتی
اک دن ہنستتے ہنستے کھیل بیٹھی کھیل محبت کا
اسی کھیل سے وہ ڈرتی تھی
جب سے کھیل بیٹھی ہے کھیل محبت کا
نہ ہنستی ہے، نہ کچھ کہتی ہے
بس چپ چپ سی وہ اب رہتی ہے
اب جب بھی بولا کرتی ہے
اپنے ساجن سے وہ کہتی ہے
میری ذات کو تو اپنے رنگ میں رنگ جا ساجن
اپنی چاہت کا تو سنگ دے جا ساجن
ہیر بنی ہوں میں تو بن جا میرا رانجن
تر جاؤں کچے گھڑے پہ میں
تیرے واسطے لانگوں باپ کا آنگن
میں نے ہر خواب تیرے واسطے سجایا ساجن
آجا اب تو برس جا مجھ پہ
بن کے چاہتوں کا ساون
میں ہار چکی تیرے واسطے خود کو
بس اب جیت دلا جا ساجن
پریت کا موسم بن جا ئے میرا
اپنے من میں میری میت جگا جا ساجن
میں تیری ذات کا عکس ہوں ٹھہری
تیرےلیے ہو ں خود سے بچھڑی
مجھے جاوداں بنا جا ساجن
تجھ میں، مجھ میں فرق ہو جائے ختم
خود کو مجھ میں یوں ملا جا ساجن
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






