دیکھے تھے تیرے اور ہی کچھ خواب جنوری..
آنکھوں میں تُو نے بھر دیا سیلاب جنوری
رہتی ہیں دن کے ماتھے پہ سورج کی شوخیاں
اور رات کو ستائے ہے مہتاب جنوری
رہ رہ کے آ رہی ہے خدا جانے کس کی یاد
دیکھا ہے میں نے پاس سے بیتاب جنوری
مشکل تو ہے یہ پھر بھی دسمبر کو بھول کر
میں کہہ رہی ہوں پیار سے آداب! جنوری
اس سالِ نو کے آنگن و منظر میں کچھ نہیں
بکھرے پڑے ہیں چار سو احباب جنوری
وشمہ وہ میرے پیار نے ملنا ہے اس برس
گزرے گا ساتھ ساتھ یہ شاداب جنوری