اپنا وجود ہی
کچھ ہارا سا لگا
وہ بیٹھا تھا سامنے
ُاس کی بانہوں میں کنارہ سا لگا
خاموشی تھی لبوں پے اور
آنکھوں میں ڈوب جانے کا اشارہ سا لگا
کتنے مٹھے بول تھے ُاس کے منہ کے
کہ ہر بول پے دل فدا ہونے سا لگا
کیسا تھا جادو ُاس دن ہوا میں بھی
جو ہر جونکھے پے ُاس کا احساس سا لگا
محبت جو نفرت میں ڈھل رہی تھی
ُاس نے ہاتھ بڑھایا اور میرے ہر لفظ پے تالا سا لگا