سینے میں میرے دھکتا پارا ہی بہت تھا
وحشت کو کسی غم نے ابھارا ہی بہت تھا
گلشن میں برگ برگ پہ ہونٹوں کے نشاں ہیں
اشکوں نے ان گلوں کو نکھارا ہی بہت تھا
اک بار جلتے ماتھے پہ وہ ہاتھ تو رکھتے
تنکے کا ڈوبتے کو سہارا ہی بہت تھا
اوج خمار یاد رہا نہ شرار مے
شیشے نے اس کا عکس اتارا ہی بہت تھا
کل گردش ایام نے جسکو مٹا دیا
وہ زخم میری روح کو پیارا ہی بہت تھا
واعظ ۔ فضائے خلد بہت دلنشیں لیکن
آنکھوں کو فقط انکا نظارہ ہی بہت تھا