آنکھیں دیکھنے والی ہیں
یہ دل میں چبھنے والی ہیں
گال بھی ہیں گلابی سے
ادائیں مارنے والی ہیں
گیلے گیسو لگتے ہیں یوں
جیسے گھٹائیں برسنے والی ہے
آنکھوں کی چمک سےایسے لگے
کہ بجلیاں گرنے والی ہیں
میٹھی سی آواز میں اسکی
باتیں سننے والی ہیں
اسکی تو یہ انگلیاں بھی
لوگوں کو نچانے والی ہیں
اسکے حسین ہاتھوں کی لکیریں
میرے ہاتھ سے ملنے والی ہیں
دیکھ کے اسکے حسن کو آج
یہ آنکھیں جلنے والی ہیں
اسکے سانسوں کی خوشبو سے
یہ کلیاں مہکنے والی ہیں
چلو جھک جاوء سب پریو
وہ تخت پہ آنے والی ہیں
فرخ کی فریاد کو پڑھ کے
وہ حکم سنانے والی ہیں