آنکھ لگی تو گلشن گلشن مے خانے تھے
آنکھ کھلی تو صحرا صحرا ویرانے تھے
دھیمے سو رج کی کرنوں میں پھولوں کی نشو و نما
رنگ برنگے روشن روشن پیمانے پیمانے تھے
آخر برف کا کفن پہنے شمع اکیلی اکیلی تھی
جب تک حُسن کا شعلہ چمکا پروانے پروانے تھے
اب جو دل کی بات سنا دی سب چپ ہیں سناٹے ہیں
ایک ذرا سی خاموشی پر افسانے افسانے تھے
چلتے ہاتھوں میں دنیا تھی بڑھے قدموں کے نیچے
بستی بستی گلیاں گلیاں کاشانے کاشانے تھے