وہ آشنا کر گیا رنج الم سے
پھر بھی کسی غم کا غم نہیں
آج بھی کوئی آنکھ نم نہیں
شاید ہم ہی نسل فرہاد سے نہیں
ہاں اس لیے اس کے جانے کا ملال نہیں
کیا ہوا جو رشتے نئے اس نے بنائے
ہمیں اس بات کا رنج نہیں
ترک کے تعلق کی یہ رسم صدیوں پرانی کوئی نئی نہیں
یہ چلن آج بھی ہے زمانے کا ہمارا نہیں
ہمیں یقین ہے ہمارے ہاتھ کے لکیروں میں اس کا نام نہیں
ہو نصیب میں کوئی گلابی شام اب وہ موسم نہیں
اسے یاد کرے دل شاد اب وہ وقت نہیں
سر شام کوئی سرگوشی سنے ہم اب یہ ستم نہیں
پھر سے روشن ہو قندیل سحر شاید اب وہ حوصلہ نہیں
کروں کوئی شکوہ اپنے رب سے ایسا میں کافر نہیں
ہاں اب یہ آنکھ ہوتی نم نہیں