آہٹ سی ہوئ تھی نہ کوئ برگ ہلا تھا
چپکے سے وہ اک رات مجھے چھوڑ گیا تھا
پتھر سے بھی اب سخت سا لہجہ ہے اسی کا
جو شخص مجھے آئنہ رو بن کے ملا تھا
اب نام اسی شخص کا دل سن کے نہ روۓ
کل جس کی حمایت میں بہت بول رہا تھا
میں پیار کی ہر حد سے گزر جاتا تھا اکثر
اس شخص کو بس مجھ سے یہی ایک گلا تھا
جس پھول کی خوشبو مری قسمت میں نہیں تھی
کیونکر مرے آنگن میں وہی پھول کھلا تھا
میں کوئ بھی آوارہ شرابی نہیں لوگو
بس یونہی کسی یاد میں مدہوش پڑا تھا
نکلا غم دنیا سے تو آ ہجر نے گھیرا
یہ روگ بھی باقرؔ مری قسمت میں لکھا تھا