آہ بندش میں ہے، پابند ہوں نالے کب تک
مُجھ سا کوئی بھی ہو اب درد کو پالے کب تک
روشنی پھر سے کسی درز سے در آئی ہے
روک پایا بھی تو روکوں گا اُجالے کب تک
درد رُخصت ہوا کب کا تری رہ میں، دیکھیں
ساتھ دیتے ہیں مرا پاؤں کے چھالے کب تک
چشم جمہور میں طوفان ہے برپا جیسے
اب پڑے رہتے ہیں ہونٹوں پہ یہ تالے کب تک
سال خوردہ ہیں ترے خط، انہیں لے جا آ کر
کوئی آخر یہ امانت بھی سنبھالے کب تک
اپنی مرضی سے ہو اک بار رواں نرم وجود
اُس کی خواہش پہ کوئی خود کو بھی ڈھالے کب تک
دیکھتا رہ تُو بھی چُپ چاپ کہ آخر اظہر
بھول پاتے ہیں تُجھے بھولنے والے کب تک