ضبط ٹوٹا ہے تو دل چیر کے آہ نکلی ہے
آنکھ میری میرے جذبوں کی گواہ نکلی ہے
اک قیامت سی بپا تھی میرے دل میں کب سے
لے کے حسرت میری لفظوں کی پناہ نکلی ہے
تیر اترا ہے رگ جاں میں یہ سب نے دیکھا
کس کو معلوم ہے خیمے سے جو آہ نکلی ہے
ایسے ہی نہیں جاں جسم سے نکلی قیصر
کرکے سارے میرے ارمان تباہ نکلی ہے