اس کی آنکھوں میں تشنگی ہے ابھی
جس سمندر سے دل لگی ہے ابھی
لوٹ آئیں گے پیار کے پنچھی
اپنے گلشن میں تازگی ہے ابھی
آج دیکھا تو دل کی تختی پر
آیتِ عشق کی کمی ہے ابھی
کیا ہوا جو ملی نہیں مجھ کو
تیری چاہت تو شبنمی ہے ابھی
جس کی تصویر ساتھ رکھتی ہوں
دل کے عالم میں اجنبی ہے ابھی
دل کو تھاما ہوا ہے برسوں سے
جانے کب تک یہ زندگی ہے ابھی
بچ کے رہنا ہے عشقِ وشمہ سے
اس کا انداز دلبری ہے ابھی