ابھی ابھی جو بسا تھا دل میں، کون تھا وہ کہاں گیا
گیا نہیں وہ صرف اکیلا، سنگ اس کے ہر سماں گیا
بہار آنے سے تھوڑا پہلے، بجلیوں نے جلا ہی ڈالا
چھو ڑ کر میں اپنا گلشن، آ با د کرنے بیا با ں گیا
لہو سے سینچا تھا جس کو میں نے، وہ سحر نجانے کہاں گئی
بھٹکتا رہا میں تلاش میں بس، نجانے کہاں وہ نشاں گیا
مہکے مہکے سے راستے ہیں، ضرور گزرا ہے وہ یہاں سے
ھوا اشارہ دے رہی ھے، وہ کہاں سے گزرا کہاں گیا
رنگیں سماں ھے برسات بھی ھے، پھر بھی دل میں ویرانیاں ھیں
ھو نہ پائے آباد اب یہ، وہیں بکھرا میں جہاں گیا
دن بھی ڈھلتا جا رھا ھے، شام نزدیک آ رھی ھے
جل رھا نہ چراغ کاسی، چاند بھی جانے کہاں گیا