ٹھہر جاو! ابھی تو کالی رات باقی ہے
ابھی تو بہار ہے ساون کی برسات باقی ہے
ابھی تو پھول ہیں پیروں تلے
کانٹوں بھری راہیں باقی ہیں
ابھی تو خواب ہیں آنکھوں میں
آنسوؤں کا سیلاب باقی ہے
ابھی تو سکوں میں ہے جان اپنی
روکتی سانسوں کا درد باقی ہے
ابھی تو ہو محفل میں ہو جاناں
صحرا کی دھوپ ابھی باقی ہے
ابھی تو ہیں خوشیوں کے لمحے
تنہائیوں کے موسم باقی ہے
ابھی تو خوشنما ہیں پھول کی مانند
ابھی تو تنکا تنکا بکھرنا باقی ہیں
ابھی تو مسکراہٹ ہے ہونٹوں پر
ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں چھبنا باقی ہیں
ابھی تو زندگی خوبصورت ہے
حالات کی تلخیاں باقی ہیں
ابھی تو سحر ہے جاناں
آگ کا دریا باقی ہے
ابھی تو ملاقات ہوتی ہے اپنی
جدائی میں دل کی تڑپ باقی ہے
ابھی تو ہیں چاہتوں کے سلسے
عشق کے امتحاں باقی ہیں
ابھی تو آغاز ہے جاناں
سوچ لو! ابھی تو انجام باقی ہے