ابھی بے خواب ہیں آنکھیں ابھی کوئی خواب رہنے دو
ادھورے لفظ ہیں جس کے ابھی وہ باب رہنے دو
اس راہ پہ تہمت کہیں نہ تم پہ آ جاۓ
میرے لٹنے کو چھوڑو تم سبھی اسباب رہنے دو
حسن و نازاکت کا تعلق ہوتا ہے ایسا ہی
نہ وجہ کوئی سوچو تم چھوڑو جناب رہنے دو
میں ہم نشیں ہوں درد کی میں باسی گہری اداسی کی
میرے ساتھ نہ چل سکو گے تم یہیں اضطراب رہنے دو
یہاں تعلق مفادوں کے یہاں رشتے معیاروں
کہاں تک ساتھ دو گے تم میرے احباب رہنے دو
محبت کا وفاؤں کا بھرم کچھ تو رہے باقی
ذرا سی کسک رہنے دو کوئی عذاب رہنے دو
کم سن ہو جرت میں تو رسمن درد نہ چھیڑو
تلافی جہاں ناممکن ہو وہ احتساب رہنے دو
اس راہ پہ بکھرے ہیں اسی نام نے لوٹ
دریچے سارے محبت کے بند سبھی باب رہنے دو
یہ کیا کہ جب چاہو ہاتھ تھام لو میر
چاہو جب مجھے تم بے سبب بیتاب رہنے دو
وجہ اشکوں کی دیکھو نام اسکا بن گیا عنبر
خاموشی سے درد سہہ جاؤ سبھی انتساب رہنے دو