اب تو عادت ہی بن گئی ہے اس کی
جب بھی دیکھتا ہے آنکھ مار دیتا ہے
گر نہ سنوں میں بات اس کی کبھی
چیخ چیخ کے گلا اپنا پھاڑ دیتا ہے
زرا سی توجہ جو مل جاۓ اس کو
تو جان تک اپنی وہ نثار دیتا ہے
بہت ہی بھولا ہے عقل کا اندھا بھی
زرا سی بات پہ غصہ میں جھاڑ دیتا ہے
کبھی جو پیار سے دیکھ لوں اس کو
خود ہی نظر اپنی وہ اتار دیتا ہے
مدتوں رہتا ہے سکوت اس کے اندر
مدتوں بعد نہ جانے کیوں پچھاڑ دیتا ہے
ہنستا ہے تو ہنستا ہی چلا جاتا ہے لگاتار
روتا ہے تو خود سر دیوار میں مار دیتا ہے