مدت سے اک سوال دل بے خبر میں ہے
وہ رنگ ہے یا خواب جو تتلی کے پر میں ہے
اک بار تیرے قدموں کی آہٹ سی سنی تھی
اب تک میری حیات تیری راہگزر میں ہے
طائر گرا زمیں پہ تو چکرا گئی فضا
شاید فضا کی روح کسی ٹوٹے پر میں ہے
تیرے لئے ہے وہ فقط اک وصل کا لمحہ
میری حیات بھر میں وہ لمحہ سفر میں ہے