اب دل میں مہکتے ہوئے جذبے نہیں ملتے
کتابوں میں سوکھے ہوۓ پھول نہیں ملتے
نہ وہ جنون رہا نہ ویسی وحشت رہی
اب تو سحرا میں بھٹکتے ہوۓ مسافر نہیں ملتے
ابر تو برستا ہے روز ہی یہاں
لیکن بھیگے ہوۓ چاند چہرے ملتے
چاہے کتنا بھی کوئ بدل جائے
خالی یادوں سے کبھی دل نہیں بہلتے
بیگی ہے شب روٹھی سی ہے چاندنی
اب روز چاہت میں کسی کے دیے نہیں جلتے
باھر چلتی ہے صبح و شام باد صبا
نہ جانے کیوں اس خویلی کے موسم نہیں بدلتے