تیرے ہجراں کے عوض بیچ دی راحت ہم نے
یوں رہ عشق میں جھیلی ہے قیامت ہم نے
خوف آئے گا ہمیں آنکھ کی ویرانی سے
اور کچھ پل جو نہ دیکھی تری صورت ہم نے
کیا تری یاد نے ہاتھوں کو ہمارے تھاما
کی ترے لمس کی محسوس لطافت ہم نے
ہم ترے قرب کی خواہش کے اثر میں تو رہے
پر کبھی کی نہیں تجدید محبّت ہم نے
اب یہ سوچا ہے ترے حسن کا چرچا نہ کریں
اب غمِ ہجر کی لکھنی ہے حکایت ہم نے
ہم نے چڑھتے ہوئے سورج کو سلامی نہیں دی
کی ہے ہر دور کے جابر سے بغاوت ہم نے