خیالوں سے جاتے نہیں ملاقات کے لیے آتے نہیں
بات بنائے بنتی نہیں گفتگو کے آثار نظر آتے نہیں
ایک ہی ڈگر کے مسا فر آتے جا تے ٹکرائیں
آنکھیں چار ہوتی ہیں مگر پہچان کے آثار نظر آتے نہیں
ایک ہی چھت کے نیچے یوں بیٹھے اجڑے اجڑے
کریں دیواروں سےباتیں زباں پہ انکی کلام آتے نہیں
ہاتھ بڑھایا ہم نے انکی جانب دوستی کے لیے
اک وہ کہ ہاتھ تھامتے ہم کو نظر آتے نہیں
یوں تو پہنچی اپنی بھی خبر ان تلک ناسازی کی
ہیں مسیحا پر بھولے سے بھی عیادت کے لیے آتے نہیں
گو دیوانےنہیں مگر آدابِ عشق سے بے بہرہ ہیں
قصور نگاہوں کا انکی کہ ہم ان کو نظر آ تے نہیں
اک امید نظرآتی ہے رہتےہیں تنہا گھر اپنا بساتے نہیں
ہے ٹھان رکھا ہم نےبھی عشق میں اب وہ نہیں یا ہم نہیں