جس کو اپنوں کا نہ مل پائے سہارا کوئی
ایسا بھی ہوتا ہے تقدیر کا مارا کوئی ؟
دل کی کشتی ہے شکستہ و غموں کے طوفاں
ایسے میں آس کا مل جائے کنارہ کوئی
ہم ملے ہیں تو مراسم کی حفاظت کر لیں
گر بچھڑ جائے تو ملتا ہے دوبارہ کوئی ؟
اپنی الفت کا میں اظہار تو کر دوں جانم
مجھ کو اقرار کا مل جائے اشارہ کوئی
آپ کے شعروں نے اک آگ لگا دی دل میں
اور دامن بھی جلا دے نہ شرارہ کوئی
آپ کا حکم تھا سو ترک محبت ہے حضور
اب ڈھلک جائے نہ آنکھوں سے ستارہ کوئی
زیست تنہا سی گزاری ہے اداسی اوڑھے
زندگی ایسی بھی کرتا ہے گوارہ کوئی ؟
جانے کیوں یاد وہ آ جاتا ہے زاہد ، جب بھی
شام کے بعد چمکتا ہے ستارہ کوئی