سب حسرتیں سب آرزؤئیں مٹا کے چلے
ہر راہ پہ تیرے ساتھ قدم ملا کے چلے
تمام عمر اوروں کی کہی مانتا رہا ہوں
اب کوئی تو میری ہاں میں ہاں ملا کے چلے
تتلی کو پھول پہ آنے سے روکے گا کون
وہ کاہے کو ہم سے چہرہ چھپا کےچلے
جو تیرے در پہ تھی وہ راحت کہیں نہیں
ہم ہر در ہر آستاں آزما کے چلے
اس عشق نے کہیں کا نہیں رہنے دیا
آخر میں ہم زندگی سے نظر چرا کے چلے
اہل عقل اب جو بھی نتیجہ اخز کریں
ہم تو اپنے جنوں کی کہانی سنا کے چلے