اب کے کرنا تو کسی ایسے کی چاہت کرنا جسے آتا ہی نہ ہو شکوہ شکایت کرنا تیری کم گوئی کے چرچے تھے زمانے بھر میں کس سے سیکھا ہے یوں باتوں کی وضاحت کرنا پہلے خوشبو کے مزاجوں کو پرکھ لو اے فراز پھر گلستان میں کسی گل سے محبت کرنا