اب ہمیں درد دل کی دوا چاہیے
ان کیے ہر گنہ کی سزا چاہیے
کوئی حسرت نہ رہ جائے پھر عشق میں
ہوش ہو یا جنوں,انتہا چاہیے
سارا عرصہ تو گزرا خزاں جھیلتے
پھول کے واسطے اب فضا چاہیے
عشق تو پڑھ لیا مکتب عشق میں
مرشدی اب جنوں کی دعا چاہیے
اک عدو کی حسیں یاد جو ساتھ ہے
زندگی کے لیے اور کیا چاہیے؟
عاشقی کا ہنر جو نہیں جانتے
نوشی ہم کو انہی سے وفا چاہیے۔