اترا ہے قطرہ قطرہ وہ غم درد اداس کے
بارش کی بوند بوند سے لپٹی تھی پیاس کے
کہتے ہو تم کہ ہنسنے لگے گل بہار میں
لیکن فضا چمن کی ہے اب بھی حواس کے
سجدوں کا مجھ کو چاہے ملے نہ کوئی صلہ
تیرے ہی سامنے میں جھکاؤگی خاص کے
ہر شخص دے رہا ہے کھلا اور چھپا فریب
کس کا یقین کیجیے ، پھر آس پاس کے
آئے ہو مال لے کے خریدو گے کیا مجھے
بک جاؤں میں مفاد کی خاطر لباس کے
اک حرف ناتواں ہے کہیں بھی تو ناز سے
اپنا کہیں تو کیسے ،تمھیں کیوں یہ راس کے