اتر وہ آیا ہے دل کے نگار خانے میں
مگر ہے پردہ مری آنکھ کے گھرانے میں
کبھی کسی کا تجسس کبھی خود اپنی تلاش
یہی تو چلتا ہے یاں پہ سفر سہانے میں
دعا کروں نہ کروں سوچ میری ہے کہ تجھے
ملیں وفائیں ہر اک گام پر زمانے میں
وہ میرے دل کے اندھیروں کا درد کیا جانے
اسے خوشی ہے مرا آشیاں جلانے میں
میں جس کے ہجر میں بھٹکی ہوئی ہوں مدت سے
عدو کو شوق ہے نقشِ قدم مٹانے میں
تمہارے نام کا چرچا تھا جا بجا دل پر
ہمارے نام کا خدشہ رہا فسانے میں
مرے لبوں پہ تبسم نہیں ہے اے وشمہ
اسے بھی آج ہی مشکل ہے مسکرانے میں