اتفاق کی عاشقی میں مجھے بے پرواہ نہ کرو
چلے بھی جانا ہے اک دن گمراہ نہ کرو
آنکھوں کے جھرنوں سے کیا بنا ہے آج تک
ہمیں تو بہاکے تم بڑے دریاء کرو
قیاس پر کائنات ختم تو نہیں ہوتی
بھل یہ صدائیں بھی کتنی بے بہا کرو
زندگی سے پہلے نابودی نہیں چاہیے
جہاں ابتدا ہوئی وہاں سے انتہا کرو
مہتابوں کے محیط میں بانہیں ہی نہیں
نہیں ملے کوئی تو خود کو ہی سہارا کرو
یہاں جینا بھی ایک ارتکاب جرُم ہے
مات ہی سہی اپنے خدا سے ملا کرو