احساس زیاں چین سے سویا نہیں جاتا
رونا بھی اگر چاہوں تو رویا نہیں جاتا
ساحل کی نگاہوں میں کوئی درد ہے ایسا
موجوں سے مِری ناؤ کو ڈھویا نہیں جاتا
کیا جانیے کس بات پہ دشمن ہوا موسم
سرسبز کسی شاخ کو ہویا نہیں جاتا
لرزاں ہے کسی خوف سے جو شام کا چہرہ
پھر دل میں تِرا پیار سمویا نہیں جاتا
ڈوبا ہے جو ہر خواب تو پھر تم سے گلہ کیا
اب تم سے مِری پلکوں پہ سویا نہیں جاتا
اب موسمِ باراں کی تڑپ ہے مِرے دل میں
برسات سے اب زخم بھی دھویا نہیں جاتا
قندیل وفا بن کے سلگتی ہی رہی ہوں
اب وشمہ کوئی سپنا پرویا نہیں جاتا