ہم تو احساس ضبط کے پابند تھے مگر
اس کی وفا کے ڈھنگ سے برباد ہو گئے ہیں
جس کی خلش میں ہم یہاں تڑپے خوشی خوشی
ہم سے بچھڑ کے وہ کہیں آباد ہو گئے ہیں
ہم دہر و حرم کی سوچ میں ڈوبے رہے مگر
وہ ہر قفس کو توڑ کے آزاد ہو گئے ہیں
ہم کو بقائے بخت سے کچھ بھی تو نہ ملا
سب لوٹ کے وہ ہم سے نا شاد ہو گئے ہیں
تحت جنوں کی ہر طلب خوش رنگ تھی مگر
عقل جہاں میں پہنچ کر نا ساز ہو گئے ہیں
شرف وصل جو ہو تو کہہ دیں گے باد بار
سب کچھ گنوا کے ہم ھی گنہگار ہو گئے ہیں